عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہ اہتمام اندھیروں کے رد میں رکھا گیا
چراغِ اِسمِ محمدﷺ لحد میں رکھا گیا
مجال ہے کہ ہوئی ہو کہیں کمی بیشی
وہ نُور معجزۂ صد بہ صد میں رکھا گیا
"کہا گیا کہ؛ پُکارو تو کہہ کے "اُنظُرنا
جو بے ادب تھے انہیں ایک حد میں رکھا گیا
وہ جس نے آدمؑ و حوّا کو بنتے دیکھا تھا
اُسے شروع سے حُسنِ ابد میں رکھا گیا
کچھ اور سہل ہوئیں اگلی منزلیں مجھ پر
وظیفۂ رُخِ آقاﷺ سند رکھا گیا
مجھے سنائی گئی یوں شفاعتوں کی نوید
منافقوں کو عذابِ حسد میں رکھا گیا
عطا ہوا تھا وہیں سے مزاجِ رُفت گری
یہ مرتبہ تھا جو بس میری مد میں رکھّا گیا
یہ امتحان بھی ہے اور وجہِ بخشش بھی
چراغ کر کے ہواؤں کی زد میں رکھا گیا
غلامِ شہؐ پہ سلام اور عدوے شہؐ سے گریز
عجب قرینہ ہے جو نیک و بد میں رکھا گیا
سوائے نعت زبان و قلم پہ کچھ بھی نہ ہو
مرے جنوں کو بھی فصلِ خِرد میں رکھا گیا
ہوئی ہے ثبت غلامی پہ مُہرِ خاتمِ پاکؐ
بہ اہتمام صفِ مُستند میں رکھا گیا
یہ نُکتہ بھی کلمے کا جواز ہے اختر
انہیںﷺ جوارِ مقامِ احَد میں رکھا گیا
اختر عثمان
No comments:
Post a Comment