عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
پیام لے کے جو آئی صبا مدینے سے
مریض عشق کی لائی دوا مدینے سے
سنو تو غور سے آئی صدا مدینے سے
قریں ہے رحمت و فضل خدا مدینے سے
ملے ہمارے بھی دل کو جلا مدینے سے
کہ مہر و ماہ نے پائی ضیا مدینے سے
تمہاری ایک جھلک نے کیا اسے دلکش
فروغ حسن نے پایا شہا مدینے سے
تمام شاہ و گدا پل رہے ہیں اس در سے
ملی جہان کو روزی سدا مدینے سے
جو آیا لے کے گیا کون لوٹا خالی ہاتھ
بتا دے کوئی سنا ہو جو ’لا‘ مدینے سے
بتا دے کوئی کسی اور سے بھی کچھ پایا
جسے ملا جو ملا وہ ملا مدینے سے
وہ آیا خُلد میں جو آ گیا مدینے میں
گیا وہ خلد سے جو چل دیا مدینے سے
نہ چین پائے گا یہ غمزدہ کسی صورت
مریضِ غم کو ملے گی شفاعت مدینے سے
لگاؤ دل کو نہ دنیا میں ہر کسی شے سے
تعلق اپنا ہو کعبے سے یا مدینے سے
گدا کی راہ جہاں دیکھیں پھر نور کیوں ہو
نوا سے پہلے ملے بے نوا مدینے سے
چمن کے پھول کھلے مُردہ دل بھی جی اٹھے
نسیم خُلد سے آئی ہے یا مدینے سے
کرے گی مردوں کو زندہ یہ تشنوں کو سیراب
وہ دیکھوں اٹھی کرم کی گھٹا مدینے سے
مدینہ چشمۂ آبِ حیات ہے یارو
چلو ہمیشہ کی لے لو بقا مدینے سے
فضائے خلد کے قرباں مگر وہ بات کہاں
مل آئیں حضرت رضواں ذرا مدینے سے
ہمارے دل کو تو بھایا ہے طیبہ ہی زاہد
تمہیں ہے مکہ تو ہو گا سوا مدینے سے
چلے جو طیبہ سے مسلم تو خلد میں پہنچے
کہ سیدھا خلد کا ہے راستہ مدینے سے
تم ایک آن میں آئے گئے تمہارے لیے
دو گام بھی نہیں عرشِ علا مدینے سے
تمہارے قدموں پہ سر صدقے جاں فدا ہو جائے
نہ لائے پھر مجھے میرا خدا مدینے سے
تِرے نصیب کا نوری ملے گا تجھ کو بھی
لے آئے حصہ یہ شاہ و گدا مدینے سے
نوری بریلوی
مصطفیٰ رضا
No comments:
Post a Comment