ستم کا ہاتھ نہ روکا مگر برا تو کہا
جو زیر لب سبھی کہتے تھے برملا تو کہا
تمام شہر تھا منکر تِرے تعلق سے
غریب شہر تجھے ہم نے آشنا تو کہا
پگھل رہی ہے تغافل کی برف اب شاید
کہ مسکرا کے مجھے یار بے وفا تو کہا
وفا کا قحط ہے اتنا کہ اب سرِ مقتل
میں اس پہ خوش ہوں کہ یاروں نے مرحبا تو کہا
ہوئی نہ سینہ سِپر گو حمایت حق میں
جو مثلِ تیغ تھا وہ حرفِ حق نما تو کہا
احمد مسعود قریشی
No comments:
Post a Comment