Saturday, 15 July 2023

ستم کا ہاتھ نہ روکا مگر برا تو کہا

 ستم کا ہاتھ نہ روکا مگر برا تو کہا

جو زیر لب سبھی کہتے تھے برملا تو کہا

تمام شہر تھا منکر تِرے تعلق سے

غریب شہر تجھے ہم نے آشنا تو کہا

پگھل رہی ہے تغافل کی برف اب شاید

کہ مسکرا کے مجھے یار بے وفا تو کہا

وفا کا قحط ہے اتنا کہ اب سرِ مقتل

میں اس پہ خوش ہوں کہ یاروں نے مرحبا تو کہا

ہوئی نہ سینہ سِپر گو حمایت حق میں

جو مثلِ تیغ تھا وہ حرفِ حق نما تو کہا


احمد مسعود قریشی

No comments:

Post a Comment