Saturday, 15 July 2023

اترنے والی نہیں ہے کبھی سفر کی تھکن

 اترنے والی نہیں ہے کبھی سفر کی تھکن

اسی لیے مِرے اندر ہے ہر خبر کی تھکن

نہ جانے کتنے مسافر یہاں سے گزرے ہیں

نہ جانے کون اتارے گا راہگزر کی تھکن

ہر آتا جاتا مسافر یہیں ہے سستاتا

پرندے آ کے اتاریں گے کب شجر کی تھکن

کبھی کبھی تو یوں آنکھیں نڈھال ہوتی ہیں

حسین چہروں سے مٹتی نہیں نظر کی تھکن

وہیں رکیں گے کہ اب جس جگہ قیام ہوا

اتاریں پھینکیں گے اسبابِ عمر بھر کی تھکن

ہم اس وجہ سے بھی ساجد نڈھال پڑتے ہیں

ہمارے جسم میں شامل ہے کوزہ گر کی تھکن


ساجد رضا

No comments:

Post a Comment