بس اک تیری گلی کی سمت ہی رستہ نہیں بنتا
وگرنہ میرے ہاتھوں سے میاں کیا کیا نہیں بنتا
ملیں گے روزِ محشر میں، یہی پیغام آیا ہے
تو یارو! میں نکلتا ہوں، مِرا رکنا نہیں بنتا
مگر یہ بات مجھ سے سادہ دل کو کون سمجھائے
کسی کو اپنا کہنے سے کوئی اپنا نہیں بنتا
ذرا سا گڑگڑا لیتا، تو شاید کام بن جاتا
بھرم ہوں میں قبیلے کا، مِرا جھکنا نہیں بنتا
دکھاوے کے لیے اک دوسرے سے کب تلک ملتے
دلوں میں دوریاں ہوں تو گلے ملنا نہیں بنتا
وہ جھوٹا بزم میں آیا، اٹھے سارے خوشامد کو
مگر میں اس سے واقف ہوں مِرا اٹھنا نہیں بنتا
ضروری تو نئیں سب چھوڑ کر اک تیرا ہو جاؤں
میں اچھا ہوں یہ کافی ہے، بہت اچھا نہیں بنتا
امیرِ شہر سے اکرام پا کر، سارے درباری
لکھیں گے جُھوٹے افسانے، مِرا لکھنا نہیں بنتا
مزمل بانڈے
No comments:
Post a Comment