اے کرمک شب کور
ذرا دیکھ تو وہ زلف سیاہ
برف زاروں میں زنگیوں کی سپاہ
رخ روشن کی حِدتوں کی گواہ
شعلہ و برق کی سسکی، انگاروں کی آہ
لذت چشیدہ جام مئے ناب ذرا
دیکھ وہ لب کہ ہیں لالہ و گلفام کی چاہ
کس کو ثواب کی حسرت بھلا رہ جائے
چشم حیرت میں ہیں خوابیدہ وہ دلچسپ گناہ
رعب رعنائی سے گنگ بیٹھا ہوں کیسے بولوں
آ کسی شب کہ تیرے حسن کا عقدہ کھولوں
تلخ ہیں جان جہاں گردوں کے الٹ پھیر بہت
تو مجھے مل کہ ذرا دیر کو میں بھی سو لوں
مریم مجید
No comments:
Post a Comment