Saturday, 15 July 2023

اے کرمک شب کور ذرا دیکھ تو

 اے کرمک شب کور


ذرا دیکھ تو وہ زلف سیاہ

برف زاروں میں زنگیوں کی سپاہ

رخ روشن کی حِدتوں کی گواہ

شعلہ و برق کی سسکی، انگاروں کی آہ

لذت چشیدہ جام مئے ناب ذرا

دیکھ وہ لب کہ ہیں لالہ و گلفام کی چاہ

کس کو ثواب کی حسرت بھلا رہ جائے

چشم حیرت میں ہیں خوابیدہ وہ دلچسپ گناہ

رعب رعنائی سے گنگ بیٹھا ہوں کیسے بولوں

آ کسی شب کہ تیرے حسن کا عقدہ کھولوں

تلخ ہیں جان جہاں گردوں کے الٹ پھیر بہت

تو مجھے مل کہ ذرا دیر کو میں بھی سو لوں


مریم مجید

No comments:

Post a Comment