کچھ ٹوٹ گیا ہے
سینے کا اسٹیشن خالی ہے
لیکن شہرِ وجود کی
پٹڑیوں پہ دوڑتی جیون ریل
پھر بھی دور کھڑی ہے
پلیٹ فارم پہ یادوں کے
انبار بکھرے ہیں
اور ان سے اُٹھتی تپش
کسی قُلی کو
انہیں اُٹھانے نہیں دیتی
منزلِ ہجر کاٹ کے آیا
مسافرِ دل
زندہ رہنے کو لہو مانگتا ہے
لہو بردار بوگیوں نے
جن نسوں سے گزر کر
سپلائی دینی ہے
وہ کثرتِ مہ نوشی سے سُکڑ گئی ہیں
سانس کی جن نالیوں سے
تازہ ہوا اندر کو آتی تھی
سگریٹوں کے گاڑھے دھویں کی گرد سے
بلاک پڑی ہیں
اور جسم میں اسٹاک ڈیڑھ گیلن خون
اشکوں کے رستے
ٹپک ٹپک کر بہنے لگا ہے
دماغ کا انجن
جو ساری عمر غموں اور نفرتوں کے
بے کراں بوجھ سے
کبھی آزردہ نہ ہونے پایا
اس نے تمہاری رُخصت پہ
جسم میں مزدوری کرتے
تمام اعضاء سے ہڑتال کروا لی ہے
اسٹیشن پہ محصور بے بس عملہ
انجام سے خوفزدہ
اک دوسرے کو
سہمے ہوئے دیکھنے لگا ہے
ایسے میں پلیٹ فارم سے
آسیب کے رونے کی آواز آتی ہے
تو کوئی اجنبی
چلتے ہوئے ٹھہر جاتا ہے
اور اس ملبے سے
یاسیت کا سبب پوچھنے لگتا ہے
جذبات کَن اکھیوں سے
اک دوسرے کو دیکھتے
اور مصنوعی اطمینان سے
جواب دیتے ہیں
کوئی بڑی بات نہیں ہے
بس
کچھ ٹُوٹ گیا ہے
نودان ناصر
No comments:
Post a Comment