چراغوں کو بجھاؤ، جل نہ جائے
مِرا گھر، اے ہواؤ! جل نہ جائے
دُھواں سا اُٹھ رہا ہے پانیوں سے
مِری کاغذ کی ناؤ، جل نہ جائے
شجر شعلے اُگلنے پر تُلا ہے
پرندے کو اُڑاؤ، جل نہ جائے
لگی ہے آگ میرے صحنِ دل میں
کہیں سینے کا گھاؤ، جل نہ جائے
محبت آگ ہے میں جانتا ہوں
تم اپنا دل بچاؤ، جل نہ جائے
کہیں اس آتشِ فُرقت میں عادل
ہمارا رکھ رکھاؤ، جل نہ جائے
نوشیروان عادل
No comments:
Post a Comment