Tuesday, 5 December 2023

کوئی امید نہ تھی پھر بھی پاس آ ہی گیا

 کوئی اُمید نہ تھی، پھر بھی پاس آ ہی گیا

اگرچہ وعدہ تھا جُھوٹا مگر نبھا ہی گیا

وہ التفات پہ آیا، پر احتیاط کے ساتھ

نظر ملائی مگر حالِ دل چُھپا ہی گیا

دل تباہ کو زخموں سے مالا مال کیا

خزاں کا دَور تھا لیکن وہ گُل کِھلا ہی گیا

مِرے قریب سے گُزرا خیال کی صُورت

سکوتِ ناز مگر کچھ نہ کچھ سُنا ہی گیا

نظر کی کاٹ کچھ ایسی کہ جان لے ہی گئی

بدن کا لوچ کچھ ایسا کہ دل ہِلا ہی گیا

پھر آج ایک تبسّم پہ ہوش کھو بیٹھا

پھر آج عشق کو دیکھا، فریب کھا ہی گیا

مِرا سکون اُسے ناگوار تھا اتنا

مِرے مزار پہ آیا، مجھے جگا ہی گیا

کبھی گھٹا، کبھی بجلی، کبھی شفق بن کر

زمیں کا شخص تھا پر آسماں پہ چھا ہی گیا

ہو ذکر اُس کا تو پڑھتے ہیں لوگ شعر مِرے

مِرا کلام زمانے کے کام آ ہی گیا

یہ قیس جیسا بھی ہے، اس قدر بُرا تو نہیں

تمہاری بزم میں آیا، غزل سُنا ہی گیا


راج کمار قیس

No comments:

Post a Comment