شہادت بابری مسجد
دسمبر پانچ کا دن تھا اچانک یہ سوال آیا
کہ میں بھی نظم لکھوں بابری پر یہ خیال آیا
اچانک دل یہ کہہ اٹھا کہ اس سے فائدہ کیا ہے
فقط منہ زور ہو جانے کا پیارے حوصلہ کیا ہے
سبب کیا تھا جو اب تک بھی ہمیں حاصل نہ ہو پائی
کہ اپنی ملکیت میں بابری شامل نہ ہو پائی
ہزاروں ریلیاں نکلیں، کئی دھرنے کیے ہم نے
دُعائیں کی ہیں رو رو کر بہت جلسے کیے ہم نے
سدا آتی ہے یہ ہر وقت مسجد ک مناروں سے
تمہیں کیا مل میں جاؤں گی فقط جلسوں سے نعروں سے
مِرے محراب و منبر سے یہی فریاد آتی ہے
تمہیں کیوں چھ دسمبر کو ہی میری یاد آتی ہے
فقط آنسو بہانے سے میں واپس آؤں گی کیسے
تسلی دل کو دے دے کر بتا بہلاؤں گی کیسے
تمہارے انتشارِ قوم نے برباد کر ڈالا
مساجد چھوڑ کے بازار کو آباد کر ڈالا
تم اب مصروف دُنیا میں ہو مسجد سے بھی دُوری ہے
تمہارے واسطے اب کام دُنیا کا ضروری ہے
رہی ایسی ہی حالت تو مساجد اور ڈھائیں گے
خراب اس سے بھی اپنے ملک میں حالات آئیں گے
اگر یہ بابری مسجد وہیں پھر سے بنانا ہے
تو ہم کو اپنی یکجائی زمانے کو بتانا ہے
جو ہم میں دُوریاں ہیں، ساتھ مل کر ختم کرتے ہیں
تِری تعمیرِ نو کا بابری ہم عزم کرتے ہیں
اگر اخلاق اچھے ہوں تو پتھر دل پگھلتےہیں
مخالف کل جو تھے اپنے وہ دیکھو ساتھ چلتے ہیں
صحیح اسلام کیا کردار سے گر ہم بتائیں گے
دلوں میں ان کے ہم اسلام سے قُربت جو لائیں گے
یقیں ہے ان کے دل میں اُلفتِ اسلام آئے گی
زمینِ ہند پہ دانش ایک ایسی شام آئے گی
ادھورے خواب کی اپنے وہی تعبیر کر دیں گے
جنہوں نے ڈھائی تھی مسجد وہی تعمیر کر دیں گے
اسرار دانش
No comments:
Post a Comment