Tuesday, 5 December 2023

وہ مجھ کو یاد رکھے دسترس سے باہر ہے

 وہ مجھ کو یاد رکھے دسترس سے باہر ہے

میں اس کو بھول سکوں میرے بس سے باہر ہے

اسیر پوری طرح سے نہ کر سکا صیاد

قفس میں جسم سے ہے اور دل قفس سے باہر ہے

تلاشِ یار میں برسوں رہا تھا جو پہلے

تلاشِ رزق میں وہ دس برس سے باہر ہے

اسیرِ حرص و ہوا یوں تو سیکڑوں ہی ملے

مگر وہ شخص تو دامِ ہوس سے باہر ہے

وہ اک صدا سرِ منزل سمجھ میں آئے گی

وہ اک صدا جو صدائے جرس سے باہر ہے

قیام اس کا ہے ہر ایک کی رگِ جاں میں

قریب تر ہے، مگر دسترس سے باہر ہے

جو مل سکو کبھی تنویر واحدی سے ملو

سُنا ہے اب کہ وہ اپنے بھی بس سے باہر ہے


تنویر واحدی

No comments:

Post a Comment