وہ مجھ کو یاد رکھے دسترس سے باہر ہے
میں اس کو بھول سکوں میرے بس سے باہر ہے
اسیر پوری طرح سے نہ کر سکا صیاد
قفس میں جسم سے ہے اور دل قفس سے باہر ہے
تلاشِ یار میں برسوں رہا تھا جو پہلے
تلاشِ رزق میں وہ دس برس سے باہر ہے
اسیرِ حرص و ہوا یوں تو سیکڑوں ہی ملے
مگر وہ شخص تو دامِ ہوس سے باہر ہے
وہ اک صدا سرِ منزل سمجھ میں آئے گی
وہ اک صدا جو صدائے جرس سے باہر ہے
قیام اس کا ہے ہر ایک کی رگِ جاں میں
قریب تر ہے، مگر دسترس سے باہر ہے
جو مل سکو کبھی تنویر واحدی سے ملو
سُنا ہے اب کہ وہ اپنے بھی بس سے باہر ہے
تنویر واحدی
No comments:
Post a Comment