خدایا! لڑکھڑاتی زندگی کیسے بسر ہو گی
مسیحا کب ملے گا، کب اُسے میری خبر ہو گی
تلاظم خیز موجوں پر سکوتِ مرگ ہے طاری
سکوتِ مرگ میں یہ زندگی کیسے بسر ہو گی
رگوں میں دوڑنے والا لہو بھی جم چکا ہے اب
نہیں لگتا کہ زندہ پھر کبھی روحِ بشر ہو گی
کبھی جی چاہتا ہے رنج لوٹا دوں اُسے سارے
نہ ہمّت بے وفائی کی اُسے بارِ دِگر ہو گی
کہاں ہے قیس اب، فرہاد کی کوئی خبر دے گا
اِدھر لیلیٰ، اُدھر شیریں کسی کی منتظر ہو گی
عباس علی شاہ ثاقب
No comments:
Post a Comment