Thursday, 7 December 2023

گماں ہے سب کو مثل طالب دیدار می رقصم

 گماں ہے سب کو مثلِ طالبِ دِیدار، می رقصم

حقیقت تو مگر یہ ہے کہ پیشِ یار، می رقصم

کہوں کیا دُشمنِ ہوشِ خِرد تھی عشق کی مستی

نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار، می رقصم

وہ ہے محبوب اس سے خُود کو میں کیونکر چُھپاؤں گا

کہ سر تا پا وصالِ شعلۂ اظہار، می رقصم

وہ سُورج ہے میں اس کی آگ میں جل جاؤں گا اک دن

کہا کس نے کہ زیرِ سایۂ دیوار، می رقصم

وہ قاتل ہے دِکھاتا ہے زمانے کو ہنر اپنا

من آں بِسمل کہ زیرِ خنجر خونخوار، می رقصم

مزہ جب ہے کہ سب مجھ پر ہنسیں اور سنگ برسائیں

بصد سامانِ رُسوائی، سرِ بازار، می رقصم

کسی کو کیا خبر، میں کیا بتاؤں، عشق کی مستی

منم آں قطرۂ شبنم، بہ نوکِ خار می رقصم

مجھے یہ دنیا والے کس طرح پہچان پائیں گے

منم رِند خراباتی، سرِ بازار، می رقصم

میں عاشق ہوں، وہ میرا دلبر و دلدار ہے عاصم

کہ من پروانۂ شمع لبِ رُخسار، می رقصم


عاصم پیرزادہ

No comments:

Post a Comment