غم دنیا کے یاد جب آئیں اس کی یاد بھی آنے دو
اک نشے میں اور اک نشہ اے یارو مل جانے دو
آخر ہم کو اپنے حال پہ خود رونا، خود ہنسنا ہے
یارو اب کچھ دیر تو ٹھہرو تھوڑی تاب تو لانے دو
مُرجھانے سے پہلے دل کو ایک ہنسی کی حسرت کیوں
بند کلی کو کچھ بھی نہیں تو ایک تبسّم پانے دو
کس انمول پشیمانی کی دولت ہے ان آنکھوں میں
پلکوں پر دو آنسو جھمکیں موتی کے سے دانے دو
اس دلبر کو پیاس ہماری کچھ تسکین تو دیتی ہے
جس نے ہم پر کھول دئیے ہیں آنکھوں کے میخانے دو
ہم بھی اپنا ہوش گنوا کر سب کے جیسے ہو جائیں
کھل ہی گئی ہے جب بوتل تو بھر کے دو پیمانے دو
ف س اعجاز
فیروز سلطان اعجاز
No comments:
Post a Comment