جس شاخ پر گلوں کی سکونت نہیں رہی
جورِ خزاں سے وہ بھی سلامت نہیں رہی
غم دل میں یوں بسا کہ محبت نہیں رہی
تفسیر رہ گئی مگر آیت نہیں رہی
آہٹ رکی تو نقشِ قدم بولنے لگے
محرومِ صوت کوئی بھی ساعت نہیں رہی
ہر شب طلوعِ خوف کی تصویر بن گئی
بطنِ افق میں صبحِ بشارت نہیں رہی
وہ چال چل کہ کل کا مورخ یہی کہے
اس شہر پر کسی کی حکومت نہیں رہی
اس فرش سے شعاعیں لپٹتی ہیں اس طرح
دیوار و در پہ جیسے کبھی چھت نہیں رہی
غلام محمد قاصر
No comments:
Post a Comment