بس یہ سنتے ہی سخن ختم ہمارا ہو جائے
واہ، کیا کہنے، بہت خوب، دوبارا ہو جائے
رات بھر ہوتی رہے ٹوٹ کے دریا زاری
یوں بغل گیر کنارے سے کنارا ہو جائے
چاک سے ہو کے بھی صد چاک لیے پھرتا ہے
جسم کی آخری خواہش ہے کہ گارا ہو جائے
بد دعا مانگنے والے کی دعا کے صدقے
ہر بُرا آدمی اللہ کو پیارا ہو جائے
رزق تو خیر مِری ثانوی ترجیح رہا
عشق بھی اتنا کمایا کہ گزارا ہو جائے
افضل خان
No comments:
Post a Comment