Saturday, 4 September 2021

کمال یہ ہے کہ کوئی کمال ہوتا نہیں

 کمال یہ ہے کہ کوئی کمال ہوتا نہیں

اور اس بساط پہ دل کو ملال ہوتا نہیں

مِری زبان ہے اتنی گریز حسنِ طلب

ہر ایرے غیرے کے آگے سوال ہوتا نہیں

زمانہ ساز کچھ ایسے بھی میرے شہر میں ہیں

محال کام بھی جن پر محال ہوتا نہیں

محبتوں کے کیلنڈر میں یہ خرابی ہے

کہ ختم ہجر کا کوئی بھی سال ہوتا نہیں

حصارِ حسن میں، بندِ ادا میں آئے بغیر

کوئی خیال بھی حسنِ خیال ہوتا نہیں

اجڑ گئے ہیں کئی پیڑ میری بستی کے

بیان مجھ سے پرندوں کا حال ہوتا نہیں

فراقِ یار ہے دراصل جائیدادِ جنوں

محبتوں کا اثاثہ وصال ہوتا نہیں

عزیز کوئی تو تجھ میں بڑی خرابی ہے

جو تیرا خود سے تعلق بحال ہوتا نہیں


عزیز فیصل

No comments:

Post a Comment