Saturday, 4 September 2021

ہم بھی گزر گئے یہاں کچھ پل گزار کے

 ہم بھی گزر گئے یہاں کچھ پل گزار کے

راتیں تھیں قرض کی یہاں دن تھے ادھار کے

جیسے پرانا ہار تھا رشتہ تِرا مِرا

اچھا کیا جو رکھ دیا تُو نے اتار کے

دل میں ہزار درد ہوں آنسو چھپا کے رکھ

کوئی تو کاروبار ہو بِن اشتہار کے

کیا جانے اب بھی درد کو کیوں ہے مِری تلاش

ٹکڑے بھی اب کہاں بچے اس کے شکار کے

شاید زباں پہ قرض تھا ہم نے چُکا دیا

خاموش ہو گئے ہیں تجھے ہم پُکار کے

ایسے سُلگ اُٹھا تِری یادوں سے دل مِرا

جیسے دھک اٹھیں کہیں جنگل چنار کے


اجے سحاب

No comments:

Post a Comment