رائیگاں ڈھونڈ رہا ہے مجھ کو
وہ جہاں ڈھونڈ رہا ہے مجھ کو
جانے یہ کون ہے میرے پیچھے
جاوِداں ڈھونڈ رہا ہے مجھ کو
کام سے کام ہے اس کو، ورنہ
وہ کہاں ڈھونڈ رہا ہے مجھ کو
کھوجتی پھرتی ہے مجھ کو یہ زمیں
آسماں ڈھونڈ رہا ہے مجھ کو
اِک مکاں ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں
اِک مکاں ڈھونڈ رہا ہے مجھ کو
پھر سے ناکام کیا چاہتا ہے
امتحاں ڈھونڈ رہا ہے مجھ کو
مجھے جب سے کوئی حاجت نہیں ہے
مہرباں ڈھونڈ رہا ہے مجھ کو
ڈھونڈا کرتا تھا جہاں کو میں کبھی
اب جہاں ڈھونڈ رہا ہے مجھ کو
لگتا ہے ڈوب کے مرنا ہے اسے
اک کنواں ڈھونڈ رہا ہے مجھ کو
جو کبھی دے ہی نہیں پایا میں
وہ بیاں ڈھونڈ رہا ہے مجھ کو
آگ سُلگی ہے کہیں اور ضمیر
اور دُھواں ڈھونڈ رہا ہے مجھ کو
ضمیر طالب
No comments:
Post a Comment