تِرے خیال کو دل سے نکالنا ہو گا
یہ سچ ہے خود کو بھی مشکل سنبھالنا ہو گا
بہت دنوں سے تماشا بنائے ہوں خود کو
اب اپنی ذات پہ اک پردہ ڈالنا ہو گا
ہے جس میں تیری بھی رسوائی میرے ساتھ صنم
وہ قصہ اب تو مجھے بھی اچھالنا ہو گا
کھلی فضاؤں میں رکھا ہے جس پرندے کو
قفس میں اب اسے دشوار پالنا ہو گا
یہ دل پگھلنے لگا موم بن کے الفت میں
اب اس کو اک نئے سانچے میں ڈھالنا ہو گا
سیاہی جم سی گئی ہے وفا کے زیور پر
ولا تم ہی کو یہ سونا اجالنا ہو گا
ولاء جمال العسیلی
No comments:
Post a Comment