Saturday, 4 September 2021

نہ جانے کس طرف اب یار لوگ رہتے ہیں

 نہ جانے کس طرف اب یار لوگ رہتے ہیں

سمندروں کے کہیں پار لوگ رہتے ہیں

یہ اتنا شور یہاں کا تو ہو نہیں سکتا

وگرنہ گھر میں تو دو چار لوگ رہتے ہیں

ہوا اُڑا کے مجھے لے بھی چل اُسی جانب

اُدھر جہاں مِرے دلدار لوگ رہتے ہیں

یہ دل کی بستی تھی کوئی جـلانے آیا تھا

میں چیخ اٹھـی، خبردار لوگ رہتے ہیں

عجیب دنیا ہے میری سمجھ سے بالاتر

ہر ایک سَمت ہی دشوار لوگ رہتے ہیں


رخشندہ نوید

No comments:

Post a Comment