نہ جانے کس طرف اب یار لوگ رہتے ہیں
سمندروں کے کہیں پار لوگ رہتے ہیں
یہ اتنا شور یہاں کا تو ہو نہیں سکتا
وگرنہ گھر میں تو دو چار لوگ رہتے ہیں
ہوا اُڑا کے مجھے لے بھی چل اُسی جانب
اُدھر جہاں مِرے دلدار لوگ رہتے ہیں
یہ دل کی بستی تھی کوئی جـلانے آیا تھا
میں چیخ اٹھـی، خبردار لوگ رہتے ہیں
عجیب دنیا ہے میری سمجھ سے بالاتر
ہر ایک سَمت ہی دشوار لوگ رہتے ہیں
رخشندہ نوید
No comments:
Post a Comment