Monday, 1 November 2021

خواہش تھی اس کی دل سے ہو چاہت تمام شد

 خواہش تھی اس کی دل سے ہو چاہت تمام شُد

سو لمحہ لمحہ کی ہے محبت تمام شد

اس نے لبوں پہ پیار سے بوسہ جو دے دیا

میری زبان کی ہوئی لُکنت تمام شد

اک عمر میں جیا ہوں تِرے خواب زار میں

اک عرصے میں ہوئی تِری قٗربت تمام شد

مقتول کی گواہی بھی لینی پڑے تو لے

ہو بے خطا سزا تو، عدالت تمام شد

پہلے تھا احترام، مساوات کا سلوک

اب عشق نے تو کر دی ہے عزت تمام شد

مجھ کو بلا رہے ہیں وہی دشت اور وہ قیس

کیسے کروں بتا میں یہ وحشت تمام شد

تم نے تو اتنی دیر لگا دی ہے آنے میں

اس انتظار نے تو کی حالت تمام شد


ايہاب شريف

No comments:

Post a Comment