نظر نے جو دیکھا کھلا ہی نہیں
جو سب نےسنا وہ کہا ہی نہیں
مِری رائے تھی اک گزارش تھی وہ
کوئی حکم میں نے دیا ہی نہیں
سبھی سانپ بِچھو ہوئے اک جگہ
اثر زہر کا پھر ہوا ہی نہیں
میں لفظوں کے معنی بدل دوں یہاں
کوئی حرف ایسا بچا ہی نہیں
ہوں ناراض اپنوں سے لیکن مِرے
زمیں کا کوئی غم جدا ہی نہیں
ادب میں سفارش بہت ہے یہاں
تبھی علم والا جیا ہی نہیں
بدل دے زمانہ خدائی تِری
کتابوں میں ایسا لکھا ہی نہیں
پگھل جائے گی اب یقیناً زمیں
فلک نے تو آنسو پیا ہی نہیں
میں ہنستی ہوں لے کر سبھی غم یہاں
کِیا رب سے کوئی گِلہ ہی نہیں
شکایت سی مجھ سے خدا کو رہے
کوئی کام ایسا کِیا ہی نہیں
اُسے تھی خبر بے خبر کب وہ تھا
مگر ساتھ اس نے دیا ہی نہیں
جو ہیں معتبر اپنے گھر میں رہے
یہ سر تو کہیں پر جُھکا ہی نہیں
دلوں میں حسد رکھ کے ملنا پڑے
ردا نے وہ سودا کِیا ہی نہیں
ردا فاطمہ
No comments:
Post a Comment