الفت میں آپ کرتے ہیں جور و جفا کی قید
میرے لیے لگاتے ہیں اس میں وفا کی قید
جو پھنس گیا ہے چھوٹنا اس کا محال ہے
حبس دوام ہے تِری زلفِ رسا کی قید
کہتا ہے عاشقی میں مِرے صبر شرط ہے
کیسی جگر گداز ہے اس دلربا کی قید
خط بھیجنے کے یار کو لاکھوں ہیں بندوبست
نامہ بری کے واسطے کیا ہے صبا کی قید
سب ہیں اسیر یار کی زنجیرِ زلف میں
اس عاشقی میں کچھ نہیں شاہ و گدا کی قید
ڈالا ہے اس نے یوسفِ کنعاں کو چاہ میں
الفت بلا ہے اور ہے اس کی بلا کی قید
یہ بھی ہمارا عقدۂ تقدیر ہو گیا
کیا دل جلاتی ہے تِری بندِ قبا کی قید
دل اپنا جس سے چاہیں گے بہلائیں گے سخن
اس میں نہیں کچھ اس بتِ ناآشنا کی قید
سخن دہلوی
No comments:
Post a Comment