ماضی کی الگنی پہ
بیتی رُتوں کے ڈھیر سے میں نے
کچھ دن چُن کے دھو ڈالے ہیں
اور ماضی کی الگنی پر وہ جُھول رہے ہیں
گُزری سردیوں کی اس چھت پہ
دُھوپ کے ساکت پھیلاؤ میں
گِیلے گِیلے دنوں کے بھیگے رنگوں کی
ڈولتی پرتوں میں اُلجھے ہوئے لمحوں کے پنچھی
چمکیلے چمکیلے پروں کو
پھڑپھڑا کر رہ جاتے ہیں
نیچے کہیں کسی کے گھر سے
اک لڑکی کی لوچ بھری آواز ابھرتی آتی ہے
دھیان کی گردش سے میرا دل چکراتا ہے
ذہن یاد کی کھائی میں گرتا چلا جاتا ہے
طلعت افروز
No comments:
Post a Comment