ٹھیک نہ ہوں جب تک اندازے اندر سے
بھرنا پڑتے ہیں خمیازے اندر سے
دستک سے دیواریں جھڑنے لگتی تھیں
کھول دئیے ہیں سب دروازے اندر سے
بہت غنیمت ہے اس ہُو کے عالم میں
اٹھتے رہتے ہیں آوازے اندر سے
پت جھڑ کا موسم بے کار نہیں جاتا
زخم نکل آتے ہیں تازے اندر سے
ناک اور بازو کٹے پڑے ہیں گلیوں میں
اٹھوائے گا کون جنازے اندر سے
انجم سلیمی
No comments:
Post a Comment