Saturday, 3 October 2020

ٹھیک نہ ہوں جب تک اندازے اندر سے

 ٹھیک نہ ہوں جب تک اندازے اندر سے

بھرنا پڑتے ہیں خمیازے اندر سے

دستک سے دیواریں جھڑنے لگتی تھیں

کھول دئیے ہیں سب دروازے اندر سے

بہت غنیمت ہے اس ہُو کے عالم میں

اٹھتے رہتے ہیں آوازے اندر سے

پت جھڑ کا موسم بے کار نہیں جاتا

زخم نکل آتے ہیں تازے اندر سے

ناک اور بازو کٹے پڑے ہیں گلیوں میں

اٹھوائے گا کون جنازے اندر سے


انجم سلیمی

No comments:

Post a Comment