رنگ سب مجھ میں تھے تصویر میں کچھ تھا ہی نہیں
رک گئے پاؤں تو زنجیر میں کچھ تھا ہی نہیں
جانے کس سمت بھٹکتی رہیں آنکھیں میری
خواب ہی خواب تھے تعبیر میں کچھ تھا ہی نہیں
کتنے دھندلے تھے دعاوں کے اجالے میرے
بجھ گئی شام تو تاثیر میں کچھ تھا ہی نہیں
میں دِیا بن کے جلا دوسرے لوگوں کے لئے
میری خاطر مِری تقدیر میں کچھ تھا ہی نہیں
اپنے ہی گھر سے نکل آیا تھا غیروں کی طرح
میرا حصہ مِری جاگیر میں کچھ تھا ہی نہیں
کرار نوری
No comments:
Post a Comment