Saturday, 3 October 2020

ہم نہ ہوتے بھی تو اتنا ہوتے

 ہم نہ ہوتے بھی تو اتنا ہوتے

کہیں دریا کہیں صحرا ہوتے

جانے کیا خود کو سمجھ رکھا ہے

یہ جو حسرت ہے کہ رسوا ہوتے

ہم سمٹ جاتے جو بانہوں میں تِری

تیری انگڑائی کا دریا ہوتے

تم سے الفت جو نہ ہوتی ہم کو

جانے کس کس کی تمنا ہوتے

سیکھ لی ہم نے بھی دنیاداری

کاش ہم صاحب دنیا ہوتے

دیکھ لیتے جو کہیں آئینہ

ہم بھی حیرت کا سراپا ہوتے


کرار نوری

No comments:

Post a Comment