تِری آنکھیں تِرا حسن جواں تحریر کرتے ہیں
زمیں کی پستیوں میں آسماں تحریر کرتے ہیں
کوئی موسم خزاں سے آشنا اس کو نہیں کرتا
ہم اپنے خون سے جو گلستاں تحریر کرتے ہیں
زمانے کی کوئی کروٹ اسے سنولا نہیں سکتی
ہم اپنی آنچ سے جو کہکشاں تحریر کرتے ہیں
کوئی دیوار اس کا راستہ کیا روک سکتی ہے
ہوا کی لوح پر اپنا بیاں تحریر کرتے ہیں
گزرتے وقت کو آبِ رواں کا نام دیتے ہیں
فراغت کو نشاط بے کراں تحریر کرتے ہیں
خیال و خواب کو الفاظ میں ڈھالا نہیں جاتا
جو کرنا چاہتے ہیں وہ کہاں تحریر کرتے ہیں
زمانے کو وہ اپنی داستاں معلوم ہوتی ہے
حقیقت میں ہم اپنی داستاں تحریر کرتے ہیں
جمیل یوسف
No comments:
Post a Comment