Saturday, 3 October 2020

دریا کو اگر کوئی روانی سے نکالے

 دریا کو اگر کوئی روانی سے نکالے

کہنا کہ مرے اشک تو پانی سے نکالے

دونوں ہی برابر کے جواں اور حسیں ہیں

اب کون، کسے زعمِ جوانی سے نکالے

پوچھا تھا کہ یہ لفظ محبت ہے کہ کیا ہے

پھر اس نے معانی جو معانی سے نکالے

ہر شخص ہی یوسف کا خریدار ہے عامی

اس شہر کو اب کون گرانی سے نکالے


عمران عامی

No comments:

Post a Comment