دریا کو اگر کوئی روانی سے نکالے
کہنا کہ مرے اشک تو پانی سے نکالے
دونوں ہی برابر کے جواں اور حسیں ہیں
اب کون، کسے زعمِ جوانی سے نکالے
پوچھا تھا کہ یہ لفظ محبت ہے کہ کیا ہے
پھر اس نے معانی جو معانی سے نکالے
ہر شخص ہی یوسف کا خریدار ہے عامی
اس شہر کو اب کون گرانی سے نکالے
عمران عامی
No comments:
Post a Comment