Saturday, 3 October 2020

اس نے بھیجا ہے جو اک خواب مجھے رات کے ہاتھ

 اس نے بھیجا ہے جو اک خواب مجھے رات کے ہاتھ

چوم کر کیوں نہ اسے دیکھ لوں میں ہاتھ کے ہاتھ

نیند آئے بھی تو ڈر لگتا ہے سونے سے مجھے

لگ نہ جاؤں میں کہیں خوابِ طلسمات کے ہاتھ

پینے دیتا نہ کبھی زہر پیالہ اس کو

پاؤں پڑ جاتا پکڑ لیتا میں سقراط کے ہاتھ

پہلے حالات کے ہاتھوں مجھے مجبور کیا

پھر مِرے خون سے رنگے گئے حالات کے ہاتھ

نور جیسے کوئی رگ رگ میں اتر جاتا ہے

اچھا لگتا ہے مجھے چوم کے سادات کے ہاتھ

کوئی ہاتھ اس کے مگر سر پہ نہیں رکھا گیا

دیکھتی رہ گئی دلہن بھری بارات کے ہاتھ

کس کی جرأت ہے کہ وہ معترض اس امر پہ ہو

رنگ دے عشق اگر ارض و سماوات کے ہاتھ

میں کہیں جاؤں اکیلا نہیں پڑتا آزر

میرے ہاتھوں سے نکلتے نہیں اس ذات کے ہاتھ


دلاور علی آزر

No comments:

Post a Comment