اس نے بھیجا ہے جو اک خواب مجھے رات کے ہاتھ
چوم کر کیوں نہ اسے دیکھ لوں میں ہاتھ کے ہاتھ
نیند آئے بھی تو ڈر لگتا ہے سونے سے مجھے
لگ نہ جاؤں میں کہیں خوابِ طلسمات کے ہاتھ
پینے دیتا نہ کبھی زہر پیالہ اس کو
پاؤں پڑ جاتا پکڑ لیتا میں سقراط کے ہاتھ
پہلے حالات کے ہاتھوں مجھے مجبور کیا
پھر مِرے خون سے رنگے گئے حالات کے ہاتھ
نور جیسے کوئی رگ رگ میں اتر جاتا ہے
اچھا لگتا ہے مجھے چوم کے سادات کے ہاتھ
کوئی ہاتھ اس کے مگر سر پہ نہیں رکھا گیا
دیکھتی رہ گئی دلہن بھری بارات کے ہاتھ
کس کی جرأت ہے کہ وہ معترض اس امر پہ ہو
رنگ دے عشق اگر ارض و سماوات کے ہاتھ
میں کہیں جاؤں اکیلا نہیں پڑتا آزر
میرے ہاتھوں سے نکلتے نہیں اس ذات کے ہاتھ
دلاور علی آزر
No comments:
Post a Comment