اپنی آنکھوں کو بھگوتے ہوئے زرداروں سے
میں نکل آیا محبت کے خریداروں سے
شرم تو آنی ہے خالق سے طلب کرتے ہوئے
جتنا کچھ مانگ لیا جاتا ہے درباروں سے
گل بدن کافی میسر تھے مگر سچ یہ ہے
میں تِرے بعد لپٹتا رہا دیواروں سے
کیا سمجھتے ہیں کہ آساں ہے ستاروں کا حصول
کوئی پوچھے تِری آنکھوں کے طلبگاروں سے
تجھ تک آنے ہی نہیں دیتے یہ حشرات الارض
پہلے نمٹوں گا تِرے حاشیہ برداروں سے
پھول دے کر اسے کہنا کہ بدن کٹتے ہیں
پھول جھڑتے نہیں چلتی ہوئی تلواروں سے
مجھ سے مت پوچھنا اس شخص کی بابت کچھ بھی
موت کا ذکر کوئی کرتا ہے بیماروں سے
راکب مختار
No comments:
Post a Comment