Saturday, 3 October 2020

اپنی آنکھوں کو بھگوتے ہوئے زرداروں سے

 اپنی آنکھوں کو بھگوتے ہوئے زرداروں سے

میں نکل آیا محبت کے خریداروں سے

شرم تو آنی ہے خالق سے طلب کرتے ہوئے

جتنا کچھ مانگ لیا جاتا ہے درباروں سے

گل بدن کافی میسر تھے مگر سچ یہ ہے

میں تِرے بعد لپٹتا رہا دیواروں سے

کیا سمجھتے ہیں کہ آساں ہے ستاروں کا حصول

کوئی پوچھے تِری آنکھوں کے طلبگاروں سے

تجھ تک آنے ہی نہیں دیتے یہ حشرات الارض

پہلے نمٹوں گا تِرے حاشیہ برداروں سے

پھول دے کر اسے کہنا کہ بدن کٹتے ہیں

پھول جھڑتے نہیں چلتی ہوئی تلواروں سے

مجھ سے مت پوچھنا اس شخص کی بابت کچھ بھی

موت کا ذکر کوئی کرتا ہے بیماروں سے


راکب مختار

No comments:

Post a Comment