وہ بچھڑ کر نڈھال تھا ہی نہیں
یعنی اس کو ملال تھا ہی نہیں
سرمئی ہجر کو ہرا کرتا
اس میں ایسا کمال تھا ہی نہیں
میرے تو پاؤں پڑ گیا اک دن
جس سفر میں وصال تھا ہی نہیں
میری تصدیق کیا بھلا کرتا
وہ کبھی میری ڈھال تھا ہی نہیں
میرے دل نے پھر اس کو چھوڑ دیا
جب تعلق بحال تھا ہی نہیں
چاند پھر ہم سفر بنا میرا
میرے آگے زوال تھا ہی نہیں
تجھ سے آگے میں سوچتی بھی کیا
تجھ سے آگے خیال تھا ہی نہیں
چوم لیتا اداسیاں ساری
کوئی ماں کی مثال تھا ہی نہیں
ناہید ورک
No comments:
Post a Comment