Saturday, 3 October 2020

وہ بچھڑ کر نڈھال تھا ہی نہیں

 وہ بچھڑ کر نڈھال تھا ہی نہیں

یعنی اس کو ملال تھا ہی نہیں

سرمئی ہجر کو ہرا کرتا

اس میں ایسا کمال تھا ہی نہیں

میرے تو پاؤں پڑ گیا اک دن

جس سفر میں وصال تھا ہی نہیں

میری تصدیق کیا بھلا کرتا

وہ کبھی میری ڈھال تھا ہی نہیں

میرے دل نے پھر اس کو چھوڑ دیا

جب تعلق بحال تھا ہی نہیں

چاند پھر ہم سفر بنا میرا

میرے آگے زوال تھا ہی نہیں

تجھ سے آگے میں سوچتی بھی کیا

تجھ سے آگے خیال تھا ہی نہیں

چوم لیتا اداسیاں ساری

کوئی ماں کی مثال تھا ہی نہیں


ناہید ورک

No comments:

Post a Comment