وحشت تھی، ہم تھے، سایۂ دیوارِ یار تھا
یا یہ کہو، کہ سر پہ کوئی جن سوار تھا
بگڑا چمن میں کل تِرے وحشی کا جب مزاج
جھونکا نسیم کا بھی، اسے ناگوار تھا
لالے کا داغ دیکھ کے چتون بدل گئی
تیور سے صاف رازِ جنوں آشکار تھا
پہلے تو آنکھ پھاڑ کے دیکھا اِدھر اُدھر
دامن پِھر اک اشارے میں بس تار تار تھا
اللہ رے توڑ نیچی نگاہوں کے تیر کا
اف بھی نہ کرنے پائے تھے اور دل کے پار تھا
ٹھوکر جو آج کھائی ہے اس مستِ ناز نے
برہم ہے اب کہ بیچ میں کس کا مزار تھا
نیرنگِ حسن و عشق کی وہ آخری بہار
تربت تھی میری اور کوئی اشکبار تھا
جھک جھک کے دیکھتا ہے فلک آج تک اسے
جس سرزمیں پہ میرا نشانِ مزار تھا
لو اب کھلا بہار کے پردے میں تھی خزاں
دھوکے کی ٹٹی یہ چمنِ روزگار تھا
ساحل کے پاس یاس نے ہمت بھی ہار دی
کچھ، ہاتھ پاؤں مارتا ظالم، تو پار تھا
یاس یگانہ
No comments:
Post a Comment