Saturday, 3 October 2020

حاضر شراب و جام ہیں تو جاگ تو سہی

 حاضر شراب و جام ہیں تُو جاگ تو سہی

الطافِ خاص وعام ہیں تو جاگ تو سہی

ہیں اختیارِ شوق میں تاروں کی منزِلیں

بہکے ہوئے مقام ہیں تو جاگ تو سہی

کانٹے بھی ایک چیز ہیں تو دیکھ تو سہی

گل بھی شرارہ فام ہیں تو جاگ تو سہی

ان شب کی ظلمتوں میں کہیں آس پاس ہی

صبحوں کے اہتمام ہیں تو جاگ تو سہی

افسردگی گناہ کی، تمثیل ہے ندیم

بے چینیاں حرام ہیں تو جاگ تو سہی

ساغر قریب تر ہے دیارِ مہ و نجوم

بس اور چند گام ہیں، تو جاگ تو سہی​


ساغر صدیقی

No comments:

Post a Comment