Saturday, 3 October 2020

اٹھ مری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

 اٹھ مِری جان مِرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

قلب ماحول میں لرزاں شرر جنگ ہیں آج

حوصلے وقت کے اور زیست کے یک رنگ ہیں آج

آبگینوں میں تپاں ولولۂ سنگ ہیں آج

حسن اور عشق ہم آواز و ہم آہنگ ہیں آج

جس میں جلتا ہوں اسی آگ میں جلنا ہے تجھے

اٹھ مِری جان مِرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

تیرے قدموں میں ہے فردوس تمدن کی بہار

تیری نظروں پہ ہے تہذیب و ترقی کا مدار

تیری آغوش ہے گہوارۂ نفس و کردار

تا بہ کے گرد ترے وہم و تعین کا حصار

کوند کر مجلس خلوت سے نکلنا ہے تجھے

اٹھ مِری جان مِرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے


تُو کہ بے جان کھلونوں سے بہل جاتی ہے

تپتی سانسوں کی حرارت سے پگھل جاتی ہے

پاؤں جس راہ میں رکھتی ہے پھسل جاتی ہے

بن کے سیماب ہر اک ظرف میں ڈھل جاتی ہے

زیست کے آہنی سانچے میں بھی ڈھلنا ہے تجھے

اٹھ مِری جان مِرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے


زندگی جہد میں ہے صبر کے قابو میں نہیں

نبض ہستی کا لہو کانپتے آنسو میں نہیں

اڑنے کھلنے میں ہے نکہت خم گیسو میں نہیں

جنت اک اور ہے جو مرد کے پہلو میں نہیں

اس کی آزاد روش پر بھی مچلنا ہے تجھے

اٹھ مِری جان مِرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے


گوشہ گوشہ میں سلگتی ہے چتا تیرے لیے

فرض کا بھیس بدلتی ہے قضا تیرے لیے

قہر ہے تیری ہر اک نرم ادا تیرے لیے

زہر ہی زہر ہے دنیا کی ہوا تیرے لیے

رت بدل ڈال اگر پھولنا پھلنا ہے تجھے

اٹھ مِری جان مِرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے


قدر اب تک تِری تاریخ نے جانی ہی نہیں

تجھ میں شعلے بھی ہیں بس اشک فشانی ہی نہیں

تُو حقیقت بھی ہے دلچسپ کہانی ہی نہیں

تیری ہستی بھی ہے اک چیز جوانی ہی نہیں

اپنی تاریخ کا عنوان بدلنا ہے تجھے

اٹھ مِری جان مِرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے


توڑ کر رسم کا بت بند قدامت سے نکل

ضعف عشرت سے نکل وہم نزاکت سے نکل

نفس کے کھینچے ہوئے حلقۂ عظمت سے نکل

قید بن جائے محبت تو محبت سے نکل

راہ کا خار ہی کیا گل بھی کچلنا ہے تجھے

اٹھ مِری جان مِرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے


توڑ یہ عزم شکن دغدغۂ پند بھی توڑ

تیری خاطر ہے جو زنجیر وہ سوگند بھی توڑ

طوق یہ بھی ہے زمرد کا گلوبند بھی توڑ

توڑ پیمانۂ مردان خرد مند بھی توڑ

بن کے طوفان چھلکنا ہے ابلنا ہے تجھے

اٹھ مِری جان مِرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے


تُو فلاطون و ارسطو ہے، تُو زہرا پرویں

تیرے قبضہ میں ہے گردوں تِری ٹھوکر میں زمیں

ہاں اٹھا جلد اٹھا پائے مقدر سے جبیں

میں بھی رکنے کا نہیں وقت بھی رکنے کا نہیں

لڑکھڑائے گی کہاں تک کہ سنبھلنا ہے تجھے

اٹھ مری جان مِرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھ


کیفی اعظمی

No comments:

Post a Comment