Saturday, 3 October 2020

جاتے ہوئے اک بار تو جی بھر کے رلائیں

 جاتے ہوئے اک بار تو جی بھر کے رلائیں

ممکن ہے کہ ہم آپ کو پھر یاد نہ آئیں

ہم چھیڑ تو دیں گے ترا محبوب فسانہ

کھنچ آئیں گی فردوس کی مدہوش فضائیں

پھر تشنہ لبی زخم کی دیکھی نہیں جاتی

پھر مانگ رہا ہوں ترے آنے کی دعائیں

پھر بیت نہ جائے یہ جوانی، یہ زمانہ

آؤ تو یہ اجڑی ہوئی محفل بھی سجائیں

اک آگ سی بھر دیتا ہے رگ رگ میں تبسم

اس لطف سے اچھی ہیں حسینوں کی جفائیں

معبود ہو ان کے ہی تصور کی تجلی

اے تشنہ لبو! آؤ، نیا دَیر بنائیں

ہم سنگِ دریا پہ بے ہوش پڑے ہیں

کہہ دے کوئی جبریل سے، بہتر ہے نہ آئیں


احمد ندیم قاسمی 

No comments:

Post a Comment