جاتے ہوئے اک بار تو جی بھر کے رلائیں
ممکن ہے کہ ہم آپ کو پھر یاد نہ آئیں
ہم چھیڑ تو دیں گے ترا محبوب فسانہ
کھنچ آئیں گی فردوس کی مدہوش فضائیں
پھر تشنہ لبی زخم کی دیکھی نہیں جاتی
پھر مانگ رہا ہوں ترے آنے کی دعائیں
پھر بیت نہ جائے یہ جوانی، یہ زمانہ
آؤ تو یہ اجڑی ہوئی محفل بھی سجائیں
اک آگ سی بھر دیتا ہے رگ رگ میں تبسم
اس لطف سے اچھی ہیں حسینوں کی جفائیں
معبود ہو ان کے ہی تصور کی تجلی
اے تشنہ لبو! آؤ، نیا دَیر بنائیں
ہم سنگِ دریا پہ بے ہوش پڑے ہیں
کہہ دے کوئی جبریل سے، بہتر ہے نہ آئیں
احمد ندیم قاسمی
No comments:
Post a Comment