Saturday, 3 October 2020

یہ الگ بات ہے ساقی کہ مجھے ہوش نہیں

 یہ الگ بات ہے ساقی کہ مجھے ہوش نہیں

ورنہ میں کچھ بھی ہوں احسان فراموش نہیں

نگہتِ گل بھی ہے اک وحشتِ نازک کی مثال

بارِ ہستی سے کوئی چیز سبکدوش نہیں

آہ وہ قرب کہ ہے دورئ افزوں کی دلیل

ہائے وہ وصل کے آغوش در آغوش نہیں

اس مروت سے وہ معبود ہوا ہے عریاں

مجھ کو آدابِ عبادت کا بھی کچھ ہوش نہیں

بیخودی میں مِری آغوش ہے مجھ سے آگے

شرم مت کیجئے، میں شاملِ آغوش نہیں

ہوش خمیازۂ مستی ہے، تو مطلب یہ ہے

جس کو کچھ ہوش ہے اس کو بھی کوئی ہوش نہیں

کس طرح بیٹھ گئے وہ مِرے پہلو میں عدم

شک یہ پڑتا ہے کہ شاید مِرا آغوش نہیں ​


عبدالحمید عدم

No comments:

Post a Comment