Tuesday, 10 November 2020

ہر روز امتحاں سے گزارا تو میں گیا

 ہر روز امتحاں سے گزارا تو میں گیا

تیرا تو کچھ گیا نہیں، مارا تو میں گیا

جب تک میں تیرے پاس تھا بس تیرے پاس تھا

تُو نے مجھے زمیں پہ اتارا تو میں گیا

یہ طاق، یہ چراغ مرے کام کے نہیں

آیا نہیں نظر وہ دوبارہ تو میں گیا

شل انگلیوں سے تھام رکھا ہے چٹان کو

چھوٹا جو ہاتھ سے یہ کنارا، تو میں گیا

اپنی انا کی آہنی زنجیر توڑ کر

دشمن نے بھی مدد کو پکارا تو میں گیا

تیری شکست اصل میں میری شکست ہے

تُو مجھ سے ایک بار بھی ہارا تو میں گیا


سعود عثمانی

No comments:

Post a Comment