تُو جا رہا تھا لوٹ کے، مہمان کی طرح
بکھرا ہوا تھا دل تِرے سامان کی طرح
کیسے کِھنچے یہ تیر کہ یہ ہے تو میں بھی ہوں
پیوست ہے رگوں میں مِری جان کی طرح
اک نام فاصلوں پہ بھی ہے متصل بھی ہے
میری کتابِ عمر کے عنوان کی طرح
اک چاپ سی تھی رات کہیں جاں کے آس پاس
دل نیم وا رہا درِ امکان کی طرح
جیسے تمام جسم میں مٹی سی بھر گئی
دُکھ بے اماں تھا ریت کے طوفان کی طرح
سعود عثمانی
No comments:
Post a Comment