وحشت بغیر خاک اڑا دی گئی تو کیا
صحرا میں کوئی ناؤ چلا دی گئی تو کیا
خاکستر جنوں ہے بچی، جل بُجھے الاؤ
اب راکھ کو ہزار ہوا دی گئی تو کیا
اب بال و پر کا شوق ہے نہ پرواز کی للک
زنجیر راستے سے ہٹا دی گئی تو کیا
سُننا تھا جس کو بابِ سماعت ہوا وہ بند
عالم تلک ہماری منادی گئی تو کیا
دیوار منہدم ہوئی، سایہ بھی ڈھ گیا
ملبے پہ عشق تختی لگا دی گئی تو کیا
جن راستوں سے کوئی گزرتا نہیں وہاں
آنکھیں ہی کیا ہیں جان بچھا دی گئی تو کیا
اکرم نقاش
No comments:
Post a Comment