Friday, 14 July 2023

سمندروں میں سمندر تھا بیکرانی تھی

 سمندروں میں سمندر تھا بیکرانی تھی

کنارے چلنا تھا، ناؤ نہیں چلانی تھی

ںچھڑتے وقت تمہیں کس پتے کا سمجھاتے

ہمارے بخت میں صدیوں کی لامکانی تھی

اگرچہ باغ میں رونق تھی تتلیاں کر کے

مگر یہ ساری گلابوں کی مہربانی تھی

تمام خواب تھا منظر دبیز دھند تلک

اور اس سے آگے تخیل کی راجدھانی تھی

اگر جھگڑنا تھا اتنی سی دیر ہونے پر

تو انتظار کی زحمت نہیں اٹھانی تھی

جنون میرے گریباں کے تار تار میں تھا

بہت وجود کے صحرا کی خاک چھانی تھی

الاؤ تاپتے لوگوں میں بیٹھ کر ازرم

میں سن رہا تھا جسے وہ مِری کہانی تھی


ازرم اسلام

No comments:

Post a Comment