ہر جگہ ہر گھڑی، ہر کہیں اک گماں
جس کے باعث کئی خواہشیں دل میں پیدا ہوئیں
جب بھی موسم کو دیکھا فسردہ اسی دید کا منتظر ہی دکھا
شام جیسے کہ اس کے نگاہیں جھپکنے سے ہو
دن بھی اُن کھڑکیوں کے قریبی فریموں سے
اُس کے لیے رابطے میں ہے کہ کب وہ انگڑائی لے
اور یہ سرخی چڑھے
رنگ اسی کے تغافل میں سرگوشیاں کرتے کرتے
سیاہی کی صورت نہ دھر لیں
کہیں یہ حسیں راستے
اس کے قدموں کی خواہش میں سنسان ہو کر نہ رہ جائیں
کہیں یہ جزیرے اس اک شخص کے منتظر
اپنی ساری کشش ہی نہ کھو دیں
اسے ملنے والے(جہاں بھر کے خوش بخت شخص)
خدا کے لیے اس کو سمجھا کہ گھر لوٹ جا یہ مناسب نہیں
ہر کوئی تیری خاطر پریشان ہے
گاؤں ویران ہے
اک گھٹا جو سیاہ رات میں کتنے عشروں کا لمبا سفر جھیل کر آئی
اور تیری زلفوں کے خم سے چھڑی جنگ میں آ کے ماری گئی
ایک طوفاں تِری سمت بڑھنے کی وجہ سے
تھک ہار کے لہر ہا لہر خود دفن ہوتا گیا
تیری آنکھوں سے چھٹتی ہوئی اک چمک
ہم اندھیرے میں رہتے ہوئے لوگ
کتنے برس روشنی کا ذریعہ کریں
کم سے کم میری حالت پہ نظرِ کرم کر
میرے شانے پہ اک بوجھ سا ہے ہٹا، ہاتھ رکھ
میرے اندر سے چیخوں کو باہر نکلنے کا سامان کر
مجھ پہ احسان کر
میرے ہونٹوں میں ہمت نہیں ہے کہ حرکت کریں
میں ہاتھوں میں اتنی بھی قوت نہیں
کہ لرزتے ہوئے اک اشارہ کریں
میرا سارا بدن اس طرح شل ہے
جیسے کسی سرد خانے میں رکھی ہوئی لاش ہو
جس کو جنبش بھی کوئی گوارا نہیں
سو پکارا نہیں
میں اگر چاہوں تو پوری دنیا کو
سگریٹ کے اک کش میں ہی پھونک دوں
پر تِری سانس میں سانس لینے کی خواہش میں
اب تک تِری آرزو میں پڑی، اک تمنا کی زنجیر میں قید ہوں
پورا ناپید ہوں
اب سفر ختم ہونے کو ہے، لوٹ آ
وہ سفر جس میں منزل کا نام و نشاں تک نہیں
وہ سفر جس میں چلتے ہوئے لوگ
خود تک سے واقف نہیں
وہ سفر جس میں تاریکیوں کی سڑک پر پڑے
دور تک خواب ہی خواب ہیں
وہ سفر جس کے دوران کچھ لوگ ڈر جاتے ہیں
کچھ گزر جاتے ہیں
یعنی مر جاتے ہیں
حسنین آفندی
No comments:
Post a Comment