سفر کو نکلے تو کوئی راہبر نہ ملا
تلاش کرتے رہے عمر بھر مگر نہ ملا
ہر ایک شخص نے چہرہ تو پڑھ لیا، لیکن
جو دل کی بات سمجھتا وہ دیدہ ور نہ ملا
ہزاروں لوگ تھے اونچی عمارتوں والے
ہمیں تو سر کے چھپانے کو ایک گھر نہ ملا
کمی نہیں تھی کوئی یوں تو قدر دانوں کی
میں اپنا کہتی جسے، ایسا معتبر نہ ملا
سفر تمام ہوا اب یہ سوچتی ہوں میں
شریکِ غم نہ ملا، کوئی ہمسفر نہ ملا
جُھلس رہا تھا بدن دُھوپ کی تمازت سے
مِرا نصیب کہیں سایۂ شجر نہ ملا
میں شوقِ سجدہ لیے شہر شہر پھرتی رہی
مِری جبیں کو صبا اس کو سنگِ در نہ ملا
پروین صبا
No comments:
Post a Comment