Sunday 8 September 2024

سفر کو نکلے تو کوئی راہبر نہ ملا

 سفر کو نکلے تو کوئی راہبر نہ ملا

تلاش کرتے رہے عمر بھر مگر نہ ملا

ہر ایک شخص نے چہرہ تو پڑھ لیا، لیکن

جو دل کی بات سمجھتا وہ دیدہ ور نہ ملا

ہزاروں لوگ تھے اونچی عمارتوں والے

ہمیں تو سر کے چھپانے کو ایک گھر نہ ملا

کمی نہیں تھی کوئی یوں تو قدر دانوں کی

میں اپنا کہتی جسے، ایسا معتبر نہ ملا

سفر تمام ہوا اب یہ سوچتی ہوں میں

شریکِ غم نہ ملا، کوئی ہمسفر نہ ملا

جُھلس رہا تھا بدن دُھوپ کی تمازت سے

مِرا نصیب کہیں سایۂ شجر نہ ملا

میں شوقِ سجدہ لیے شہر شہر پھرتی رہی

مِری جبیں کو صبا اس کو سنگِ در نہ ملا


پروین صبا

No comments:

Post a Comment