Friday 27 September 2024

جگر میں درد ہو تو آنکھ سے آنسو ٹپکتے ہیں

جگر میں درد ہو تو آنکھ سے آنسو ٹپکتے ہیں

لبا لب ہونے والے جام ہی اکثر چھلکتے ہیں

تیری نظروں کے فیض بیکراں نے چھو لیا جن کو

وہ ذرے مہر عالم تاب کے صورت چمکتے ہیں

ہے مطلوبِ حقیقی شاہ رگ سے بھی قریب اپنے

نہ جانے طالبانِ دید کیوں در در بھٹکتے ہیں

کنول نمرودیت کا آب میں مُرجھائے جاتا ہے

مگر خلعت کے غنچے آگ میں رہ کر چٹکتے ہیں

نہ کرنا ترکِ خوفِ جاں سے کارِ آشیاں بندی

نشیمن بجلیوں کی آنکھ میں اکثر کھٹکتے ہیں

کسی رشکِ چمن کی یاد میں گرتے ہیں جو آنسو

وہ قطرے بن کے شبنم عارضِ گُل پر چھلکتے ہیں

کبھی سوچا بھی ہے تُو نے کسی کی آنکھ سے کوثر

بجائے آبِ قطرہ ہائے خون کیونکر ٹپکتے ہیں


کوثر جعفری

No comments:

Post a Comment