جگر میں درد ہو تو آنکھ سے آنسو ٹپکتے ہیں
لبا لب ہونے والے جام ہی اکثر چھلکتے ہیں
تیری نظروں کے فیض بیکراں نے چھو لیا جن کو
وہ ذرے مہر عالم تاب کے صورت چمکتے ہیں
ہے مطلوبِ حقیقی شاہ رگ سے بھی قریب اپنے
نہ جانے طالبانِ دید کیوں در در بھٹکتے ہیں
کنول نمرودیت کا آب میں مُرجھائے جاتا ہے
مگر خلعت کے غنچے آگ میں رہ کر چٹکتے ہیں
نہ کرنا ترکِ خوفِ جاں سے کارِ آشیاں بندی
نشیمن بجلیوں کی آنکھ میں اکثر کھٹکتے ہیں
کسی رشکِ چمن کی یاد میں گرتے ہیں جو آنسو
وہ قطرے بن کے شبنم عارضِ گُل پر چھلکتے ہیں
کبھی سوچا بھی ہے تُو نے کسی کی آنکھ سے کوثر
بجائے آبِ قطرہ ہائے خون کیونکر ٹپکتے ہیں
کوثر جعفری
No comments:
Post a Comment