Sunday, 22 September 2024

ہجر کا دن ہے یہ گزرنے دے

  ہجر کا دن ہے یہ گزرنے دے

اے غمِ یار! شام ڈھلنے دے

عمر تھوڑی ہے پیاس صدیوں کی

شبنمی رُت! سکوں سے مرنے دے 

اس نے مانگا ہے مجھ سے اک تحفہ

 ہو جو ممکن تو ابر برسا دے

جذبۂ شوق لَو بھی دے گا اسے

پیکرِ صبر میں تو ڈھلنے دے

کوئی لمحہ تو ہو سخی ایسا

کاسۂ دِید کو جو بھرنے دے

پھر اویس الحسن میں یہ چاہوں

زندگی بام سے اُترنے دے


اویس الحسن

No comments:

Post a Comment