Thursday 19 September 2024

خود اپنے آپ سے آگے نکل نہیں سکتا

 خُود اپنے آپ سے آگے نکل نہیں سکتا

اب اس قدر بھی کوئی تیز چل نہیں سکتا

کبھی خزاں کا ہے موسم کبھی بہار کی رُت

میں روز روز یہ کپڑے بدل نہیں سکتا

شجر کی شاخ تراشی بہت ضروری ہے

جو زخم زخم نہیں ہے وہ پھل نہیں سکتا

ملاپ ہو گا ہمارا کسی سمندر میں

الگ الگ ہو جو دریا بدل نہیں سکتا

اُگا ہوا ہے مِری ہر چٹان پر سبزہ

ہوں وہ پہاڑ جو لاوہ اُگل نہیں سکتا

بُجھائے کیسے کوئی آنکھ روشنی کی پیاس

مِرے چراغ سے چشمہ اُبل نہیں سکتا

وہ لے گیا ہے صفی کاٹ کر مِرا بازو

خسارا ایسا ہے میں ہاتھ مل نہیں سکتا


سفیان صفی

No comments:

Post a Comment