بہت دشوار تھا لمحہ
بہت دشوار تھا لمحہ
مِرے دل کی جو بستی سے
قیمات بن کے گزرا تھا
اسے غیروں کی باہوں میں
جب میں ہنستے دیکھا تھا
جو کل تک تھے مِرے اپنے
اچانک اجنبی ہو گئے
مسافر تھی جن راہوں کی
وہ رستے سب مِرے کھو گئے
جسے اپنا کہا میں نے
وہی دُشمن سدا نکلا
جسے ناصر سمجھتی تھی
وہی قاتل مِرا نکلا
بھروسہ ہو بھلا کیسے
زمانے کے مکینوں پر
جسے بھی غم سُنایا ہے
اسی نے میٹھے لہجے میں
انا میری کو کُچلا ہے
مرے دل کو رُلایا ہے
بہت دُشوار تھا لمحہ
انعم نقوی
No comments:
Post a Comment