عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
الٰہی دو جہاں میں بیکسوں کا آسرا تُو ہے
حقیقت میں دل بے مدعا کا مدعا تو ہے
تِری رحمت سے پایا فیض کیا فصلِ بہاری نے
گلوں کا رنگ و بُو تو ہے، عنادل کی نوا تو ہے
ادھر ہے دشمن و حاکم سے ظاہر تیری جباری
ادھر احباب کا سرمایۂ مہر و وفا تو ہے
تیرے ادنیٰ کرم سے عقل نے بالیدگی پائی
بظاہر فہم انساں سے اگرچہ ماورا تو ہے
ہیں تیرے دم قدم سے رونقیں گلزار ہستی میں
یہاں کا باغباں تو، آب تو، بادِ صبا تو ہے
کبھی مظلوم و بیکس کو ہے تسکیں رحم سے تیرے
کبھی اک ظالم و سرکش کے سر پر قہر سا تو ہے
یہاں حیوان و جن و انس سب محتاج ہیں تیرے
وہاں مخلوق نامعلوم کا بھی آسرا تو ہے
تِری تعریف ہے بیروں حدودِ سعئ امکاں سے
ہماری سرحد ادراک کی بس انتہا تو ہے
بصارت لطف سے تیرے ہے قائم اپنی آنکھوں میں
مِرے ٹوٹے ہوئے دل میں بصیرت کی ضیا تو ہے
خضر آزاد ہے پھندوں سے دولت اور حکومت کے
ہے اس کے واسطے کافی کہ اس کا اک خدا تو ہے
خضر تمیمی
No comments:
Post a Comment