Friday 27 September 2024

دل اپنا ازل سے تو بس اس کا دوانہ ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دل اپنا ازل سے تو بس اس کا دِوانہ ہے

محبوب خداﷺ ہے جو سلطان زمانہ ہے

آقاؐ ہیں وہ داتا ہیں مالک وہ ہمارے ہیں

صدقے پہ انہی کے تو پلتا یہ زمانہ ہے

نہ ان کا کوئی ہم سر نہ کوئی مماثل ہے

مخلوق میں خالق کی وہ سب سے یگانہ ہے

دنیا کا حسیں کوئی جچتا نہیں نظروں کو

اللہ! قسم دل یہ بس ان کا دِوانہ ہے

اس نورِ خدا کے ہی صدقے میں بنی دنیا

ہر شئے سے عیاں دیکھو اب جلوۂ جاناں ہے

وہ آئینۂ حق ہیں، ہیں نور سراپا وہ

جس نے بھی انہیں دیکھا ہو جاتا دِوانہ ہے

نہ ان سا ہوا نہ ہے نہ ہو گا قیامت تک

شہکار وہ قدرت کا یکتائے زمانہ ہے

یہ فرشِ زمیں ہو یا افلاک کا خطہ ہو

سب ان کی ہی خاطر ہے سب ان کا زمانہ ہے

خورشید قمر تاروں کو نور ملا ان سے

اس ماہ نبوتﷺ سے روشن یہ زمانہ ہے

جتنے بھی نبیؑ آئے، جتنے بھی ولی آئے

ہیں سب ہی فدا ان پر ہر کوئی دِوانہ ہے

سرکار دو عالمﷺ کا جو دل سے ہوا عاشق

اس کی یہ خدائی ہے اس کا ہی زمانہ ہے

عزت بس اسی کی ہے عشاق کی نظروں میں

جو سرور عالمﷺ کا عاشق ہےدوانہ ہے

اے کاش! کرم ہو یوں جاؤں مدینے کو

مدت سے تمنا ہے طیبہ مجھے جانا ہے

تقدیر مجھے بس تو جانے دے مدینے کو

کچھ بھی ہو وہاں سے پھر واپس نہیں آنا ہے

خاکِ در اقدس کو ملنا ہے کلیجے سے

سب درد و الم دل سے اب دور بھگانا ہے

ماتھے پہ رگڑنا ہے مٹی وہ مدینے کی

بگڑی ہوئی قسمت کو ہم نے چمکانا ہے

دکھ رنج و الم سارے دنیا کے ستم سارے

سرکار کو رو رو کر حال اپنا سنانا ہے

نظروں میں بسانا ہے جلوے شہِ بطحیٰ کے

درد دل بسمل سے چھٹکارا بھی پانا ہے

سنگِ درِ جاناں پر کرنا ہے جبیں سائی

آنکھوں سے کلیجے سے سینے سے لگانا ہے

سنتا ہوں کہ جنت ہے محبوب کی گلیوں میں

ان گلیوں میں اب مجھ کو چکر بھی لگانا ہے

جو عشق کی رنگت تھی اصحابِ شہِ دیں پر

اس عشق کی رنگت میں ہستی کو رنگانا ہے

رب انساں فرشتے سب پڑھتے ہیں درود ان پر

کیا خوب یہ صل علٰی آقاﷺ کا ترانہ ہے

کنکر نے پڑھا کلمہ پیڑوں نے کیا سجدہ

جبریل قدم چُومے، کیا شان شہانہ ہے

بیٹھے ہیں سجا کر ہم سرکار کی محفل کو

انوار کی بارش میں اب ہم کو نہانا ہے

کرے دفن کہیں پر بھی بس جان لے یہ دنیا

خالد کا شہ دیںﷺ کے قدموں میں ٹھکانہ ہے


خالد عبداللہ اشرفی

No comments:

Post a Comment